Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 20 آخری قسط

تصبیہا پولیش اسٹیشن پہنچ گئی شاہ کہ ساتھ ۔ وہ مؤصب کہ لوکاپ کہ باہر کھڑی تھی ،موصب ساخوں کہ پار دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔اسے اس حالت میں دیکھ کر تصبیہا کی آنکھوں آنسو آگئے ۔موصب جس کی نظر ایک مرئی نقطے پر تھی اس نے سامنے دیکھا تو تصبیہا جو دیکھ کر وہ فورا اٹھا اور اس کہ پاس آیا مگر آج ان کہ بیچ ایک دیوار تھی،سلاخوں کی دیوار۔
تم ۔۔تم یہاں کیوں آہیں ؟ (موصب نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔تصبیہا بنا کوئی جواب دیے آنسوں بہا رہی تھی ۔موصب نے اس کا چہرا ہاتھوں میں لیا اور اس کہ آنسو صاف کیے اور بولا)

تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا تصبیہا ۔۔(اس نے نرمی سے کہا )

یہ سب میرئ وجہ سے ہورہا ہے ۔۔(اس کی آواز پھرائی ہوئی تھی ۔۔)

نہیں ۔۔۔نہیں میری جان ایسا نہیں ہے ۔۔(اس نے اسے سمجھانا چاہا)

ایسا ہے ۔۔(اس نے موصب کی بات رد کی) میں تمہیں یہاں نیہں دیکھ سکتی ۔۔۔(وہ موصب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی)

کتنی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کودیکھتے رہے،انھیں نہیں تھی خبر کہ وہ کہاں ہیں ،کون لوگ ان کہ آس پاس ہیں ۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایک پولیس والا آیا اور بولا)

ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے ۔۔۔(وہ زور سے بولا تو وہ دونوں ہوش میں آئے ۔۔۔۔۔)

جلدی آجاو۔۔(تصبیہا نے اس سے پہلی بار التجا کرتے ہوئے کہا مگر یہ اس کہ بس میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔موصب ہلکا سا مسکرایا اور بولا)

اپنا خیال رکھنا اور رونا بلکل نہیں۔۔۔(موصب اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو تصبیہا نے ہاں میں گردن ہلائی اور جانے لگی پھر مڑکر اسے دیکھا تو موصب نے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ چلی گئی ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر بھی اسے سکون نہیں ملا اسے اس حال میں دیکھ کر تصبیہا کو قرار نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ہی قصوروار سمجھ رہی تھی ۔۔۔ساری رات اس نے اسی سوچ میں گزار دی ۔۔ فجر کی نماز پڑھ کر وہ اٹھی اور ایک نتیجے پر پہنچی ۔ اس نے جہانگیر کو فون کیا )

وہ سورہا تھا جب موبائل پر اس کی کال آئی جب اس نے نام دیکھا تو جھٹ اٹھ بیٹھا اور فورن اس کی کال اٹھائی۔۔

اسلام و علیکم۔۔(جہانگیر نے سلام کیا )

تم سے ملنا ہے مجھے ۔۔(اس نے سلام کا جواب دیے بغیر کہا)

زہے نصیب ۔۔۔۔(اس نے شوخی سے بولا وہ تو خوشی سے ہی نہال ہورہا تھا کہ تصبیہا نے اسے ملنے کہ لیے کہا)

تصبیہا نے اسے جگہ اور وقت بتا کر فون بند کردیا ۔اے غصہ تو اس پر بہت آیا مگر ضبت کر گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے کیسے یاد کیا آج ؟(جہانگیر نے اس پوچھا جو اس کہ سامنے بیٹھی تھی)

موصب کو وہاں سے نکالو۔۔۔(اس نے جہانگیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا)
میں نے تمہیں شرط بتا دی تھی کہ تمہیں اسے چھوڑنا۔۔۔(اس کی بات پوری ہونے سے پہلے وہ بولی)
پتا ہے ۔(وہ غصے سے بولی) ۔مجھے منظور ہے (اس نے ہلکی آواز میں بولا)
جہانگیر کہ لبوں مسکراہٹ اگئی اس کی بات سن کر اسے اپنا پلین کامیاب ہوتا دیکھ رہا تھا۔۔جہانگیر نے خولا کہ پیپرز اس کو دیے تو تصبیہا بولی)
نہیں ابھی نہیں پہلے اسے باہر نکلو ۔جب وہ باعزت باہر آجائے گا اپنے گھر چلا جائے گا تب میں سائن کروں گی۔۔۔(تصبیہا نے اسے اپنی شرط بتائی )
کیوں بھروسہ نہیں ہے مجھ پہ ؟(جہانگیر نے اس سے پوچھا)
جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔(تصبیہا نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا)
تم لنچ کرو جب تک وہ گھر واپس آجائے گا ۔۔۔(جہانگیر نے مسکرا کر کہا )
۔مگر دل میں سوچا اس کہ لیے اتنا آسان تھا یہ ۔جب کہ شاہ اور احمد صاحب کب سے محنت کررہے تھے اسے چھڑوانے کی۔)
کیا پیو گی؟؟(جہانگیر نے اس سے پوچھا)
تمہارا خون ۔۔۔۔۔۔(تصبیہا نے چیڑتے ہوئے کہا اور اٹھ کر جانے لگی تو جہانگیر بولا)
شاید تم نے سنا نہیں میں نے کہا تھا کہ جب تک ہم لنچ کریں گے ،،،،،(جہانگیر نے بات ادھورا چھوڑ دیا مگر تصبیہا اس کا مطلب سمجھ گئی تھی تبھی وہ بولی)
لنچ وہ بھی تمہارے ساتھ ؟ دماغ ٹھیک ہے ؟(تصبیہا نے انرو اچکاتے ہوئے کہا اور ہوٹل کہ باہر چلی گئی )
جہانگیر اسے جاتا دیکھ رہا تھا ۔ محبت بھی عجیب شہ ہے ۔۔۔تصبیہا چلتے چلتے پارک کی بینچ پر بیٹھ گئی اس کی آنکھوں کہ سامنے موصب کہ ساتھ بتائے تمام لمحے کسی فلم کی طرح چل رہے تھے ۔ اچھے ،برے سارے پل ۔تصبیہا کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ اسے چھوڑنز اتنا آسان نہیں تھا ۔۔ شاید جسم سے جان نکلنا اتنا مژکل نہیں ہو جیتا اس کہ لیے موصب کو چھوڑنا تھا ۔ جہانگیر دور کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔ اسے تصبیہا کو روتا دیکھ تکیف بھی ہورہی تھی مگر اس نے اپنے دل کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ وہ اس ککی زندگی کہ سارے ٖغم ،دکھاور تکلیف ختم کردے گا۔۔۔
تصبیہا کو وہاں بیٹھے دوگھنٹے ہوگئے تھے مگر خیالوں کا سلسلہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔اا سلسے کو شاہ کی کال نے ٹھوڑا۔۔تصبیہا اپنے آنسو صاف کئے اور کال پیک کی۔۔
ہیلو ۔۔۔شاہ ۔۔(تصبیہا نے نرمی سے پوچھا )
آپی مبارک ہو ،،بھائی کی بیل ہوگئی ہوگئی ہے ۔ ہم گھر آرہے ہیں ۔(شاہ نے خوشی سے تصبیہا کو خببر دی ۔شاہ جو کہ صبح سے ہی گھر پر نہیں تھا اس لیے اسے پتا نہیں تھا کہ تصبیہا کہاہے۔)
یہ تو بہت خوشی خبر ہے ۔(تصبیہا نے مسکرا کر کہا)

چلیں گھر پر بات ہوتی ہے۔۔(شاہ نے یہ کہہ کر کال کٹ کردی)

۔تصبیہا خالی دماغ لیے موبائل کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی جب جہانگیر آکر اس کہ برابر میں بیٹھا ۔تصبیہا نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا تو تصبیہا کی آنکھیں انگارہ ہورہی تھیں ،ان آنکھوں میں جہانگیر کہ لیے نفرت ہی نفرت تھی ۔۔۔ جہانگیر نے پیپرز اس کہ آگے بڑھائے اور بولا

میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے اب تمہاری باری ۔۔۔

تصبیہا نے اس کہ ہاتھ سے پین لیا اور سائن کردیے اور ساتھ ہی آنسو بھی گرے جو پین کی سیاہی کو پھیلا گئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب گھر پہنچا تو اسے سب سے پہلے تصبیہا کو دیکھھنے کی چاہ تھی مگر وہ تو نہیں تھی ۔موصب نے سوچا ہوسکتا ہے وہ کمرے میں ہو ۔وہ احمد صاحب سے ملا،موم سے ملا اور ان سے بولا

تصبیہا کمرے میں ہی ہے ؟ موصب نے ان سے تصبیہا کہ بارے میں پوچھا تو وہ بولیں )

تصبیہا تو صبح سے گھر میں نہیں ہے ،کیا وہ تمہارے ساتھ نہیں تھی شاہ ؟ (انھوں نے بھی اسے صبح سے گھر میں نہیں دیکھا تھا ۔)
ہمارے ساتھ کیوں ہونگی وہ؟ (شاہ بولا اور موصب کا دماغ معوف ہورہا تھا ۔ کہ وہ کہا چلی گئی ۔اس نے تصبیہا کو کال کی بیل جارہی تھی مگر کسی نے نہیں اٹھائی ۔ کہاں چلی گئی یہاں کسی کو پتا ہی نہیں ہے ۔۔(موصب غصے سے بولا)

میں کال کرتا ہوں ۔(شاہ نے اسے غصے میں دیکھ کر فورا کال لگائی )

میں خود کرلوں گا کوئی ضرورت نہیں ہے (موصب نے شاہ کو غصے سے منا کیا اور خود کال ملائی ۔بیل جارہی تھی مگر کسی نے نہیں اٹھائی کال ،موصب کہ بار بار کال کرنے پر بھی جب اس نے کال نہیں اٹھائی تو موصب نے موبائل دیوار پے دے مارا ۔۔

موصب کیا ہوگیا ہے آجائے گی وہ ،ہوسکتا ہے کسی کام سے باہر گئی ہو۔۔(احمد صاحب اسے سمجھاتے ہوئے بولے)

مجھ سے زیادہ اہم اور کیا ہوسکتا ہے اس کہ لیے ڈیڈ (موصب درد بھرے لہجے میں بولا تو احمد صاحب چپ پوگئے کیونکہ وہ صحیح کہہ رہا تھا ۔)

بھائی کچھ دیر پہلے میری بات ہوئی تھی آپی سے میں نے انھیں بتایا تھا کہ آپ آرہے ہیں وہ بہت خوش تھیں ۔۔(شاہ بولا پھر کچھ خیال آنے پر اس نے موصب سے کہا)

بھائی زرا باہر آئیں مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔(شاہ پریشانی سے بولا )

موصب نے شاہ کو دیکھنے لگا اور پھر باہر چلا گیا ،شاہ بھی اس کہ پیچھے گیا ۔وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے تو شاہ بولا)

بھائی آپ کو اندر جہانگیر نے کروایا تھا ۔۔(شاہ بولا)

مجھے پتا ہے ۔(موصب بولا )

مگر آپ کو یہ نہیں پتا کہ جہانگیر کی ملاقات آپی سے ہوئی تھی ۔۔(شاہ نے موصب کہ سر پر بم پھوڑا)

کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جی اور اس نے کہا تھا کہ اگر وہ آپ کو چھوڑ دیں گی تو وہ آپ کر باہر نکال دے گا ۔۔آپی نے تو منا کردیا تھا مگر۔۔۔۔۔۔(شاہ بولتے بولت رکا )

شاہ اس کا نمبر ٹریس کرو کہاں کی لوکیشن آرہی ہے (موصب نے اسے حکم دیا تو شاہ نے فوران کام شروع کردیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوکیشن کو ٹریس کرتے ہوئے وہ جس جگہ پہچے تو وہ ایک پارک تھا اور ایک بیبچ کہ پاس تصبیہا کا موبائل پڑا ملا ۔موصب نے موبائل اٹھایا اور اس نے کالس رکارڈ چیک کیے تو جہانگیر کو لاسٹ کال کی گئی تھی ۔۔۔۔موصب کا خون کھول گیا وہ غصے سے پاگل ہورہا تھا ۔)

ایک ایک دفعہ وہ مجھے مل جائے ۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔۔(موصب کو جہانگیر پر غصہ آرہا تھا )

سوچنا یہ کہ وہ آپی کو لے کر کہا گیا ہوگا ۔۔(شاہ نے فکر مندی سے کہا )

جہانگیر کی لوکیشن پتاکرو ۔۔۔۔۔(موصب نے کہا)

کچھ ہی دیر میں جہانگیر کی لوکیشن کا پتہ چل گیا ۔جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو وہ ایک ہوسپیٹل تھا۔۔۔)

یہ یہاں کیا کررہا ہے ؟(شاہ نے بولا تو موصب بنا کوئی جواب دئے اندر کی طرف بڑھ گیا)

وہ اندر پہنچا تو جہانگیر اوپریشن ٹھیٹر کہ باہر بیٹھا تھا ۔موصب اس پر لپکا ۔ موصب اسے مارتا رہا مگر اس نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشیش ہی نہیں کی۔

تیری ہمت کیسے ہوئی اسے بلیک میل کرنے کی ۔تجھے میں نے منا کیا تھا نا کہ دور رہ اس سے مگر تو نہیں منا ۔اب تو گیا ۔۔(موصب مارت مارت روکا اور اس کا کالر پکڑکر اسے اپنے قریب کرتا ہوا بولا۔ اور پھر مارنے لگا ۔شاہ جو کب سے اسے روکنے کی کوشیش کررہا تھا مگر ناکام رہا)

کہاں ہے تصبیہا ،کیا کیا ہے تو نے اس کہ ساتھ ۔۔۔(وہ حلق کہ بل چیخا ،وہاں لوگ جما ہو گئے ،ڈاکٹر جما ہوگئے انھیں چھڑوانے لگے۔۔ بہت مشکل کہ بعد اسے الگ کیا ۔۔جہانگیر کہ منہ سے خون نکل رہا تھا ۔۔۔۔اس کا حلیا بگڑ گیا تھا ۔
موصب کی سانس پھول رہی تھی مگر اس کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔شاہ نے بہت مشکل سے اسے سمبھالا ہوا تھا ،ورنہ اس کا پورا ارادہ تھا جہانگیر کو مارنے کا۔۔)

موصب نے اپنے آپ کو شاہ کی گرفت سے آزاد کیا اور جہانگیر کہ پاس پہنچا اسے زمین سے اٹھایا کالر سے پکڑکر اور بولا) کہاں ہے تصبیہا ؟
جہانگیر کہ بنا کچھ کہے بس ایک طرف انگلی کردی ۔کہ وہ وہاں ہے ۔موصب اور شاہ دونوں نے اس کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا تو اس کا اشارہ اوپریشن ٹھیٹر کی طرف تھا ۔۔موصب نے جہانگیر کو دیکھا اور پوچھا )

کیا کیا ہے تو نے اس کہ ساتھ ؟(موصب خوف زدہ ہوگیا تھا)

تو بہت خوش قسمت ہے ،کہ تجھے تصبیہا جیسی بیوی ملی ہے ۔۔(جہانگیر نے اپنی استین سے منہ سے نکلتا خون صاف کیا )

وہ تجھ سے بہت محبت کرتی ہے ۔۔۔۔(وہ بولا کہ مصنوعی سا مسکرایا) مجھے نہیں پتا تھا کہ آج کہ زمانے میں بھی کوئی ایسی محبت کرسکتا ہے کیسی سے ۔۔۔کاش یہ محبت میرے حصۓ میں آئی ہوتی (وہ حثرت سے بولا)

پتا ہے جب میں نے اسے سائن کرنے کہ لیے پیپرز دیے نے کیا کہا تھا ۔۔۔(اس نے کہہ کر موصب کی طرف سولیاں نظروں سے دیکھا اور پھر بولا)

اس نے کہا موصب کبھی ان پیپرز پر سائن نہیں کرے گا ۔۔۔۔(تصبیہا کہ لہجے میں ایک مان تھا ،یقین تھا)

جب تم سے کرواسکتا ہو تو اس سے کرواہی لوں گا ۔۔(جہانگیر فخریہ بولا)

تصبیہا چپ تھی کافی دیر بعد وہ بولا )

ایک دفعہ تم میری ہمسفر بن جاو میں تمہارے سارے غم ،تکلیف ختم کردوں گا وعدہ کرتا ہوں تم سے ،(جہانگیر نے نرمی سے کہا تو تصبیہا نے اس کی طرف دیکھا اور بولی )

تمہاری زندگی میں شامل ہوجاوں ؟ (تصبیہا نے ابرو اچکا کر پوچھا ) تصبیہا صرف موصب کہ لیے بنی ہے ۔اس کے علاوہ اس پر کسی کا حق نہیں ہوسکتا ،وہ کسی کی زندگی میں شامل نہیں ہوسکتی ۔میرا جینا اور مرنا صرف موصب کہ لیے ہے ۔کسی اور کہ بارے میں تو میں تصور بھی نہیں کرسکتی ۔تمہیں کیا لگا اس کاغذ پر سائن کرواکر تم نے مجھے اس سے الگ کردیا ۔ہرگز نہیں ۔۔۔(تصبیہا نے کہہ کر نفی میں سر ہلایا ،اس کی آنکھوں کس قدر نفرت،غصہ تھا جہانگیر کہ لیے وہ آسانی سے دیکھ سکتا تھا ۔۔۔تصبیہا ایک ہاتھ اس کہ سامنے کیا جس میں ایک تیز دھار بلیڈ تھا اس نے اپنے سیدھے ہاتھ کی نس پر رکھا اور بے دردی سے پھیر دیا ۔یہ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ جہانگیر اسے روکھ بھی نہ سکا۔۔ اس کا ہاتھ خون میں ہوگیا خون اس کہ ہاتھ سے ٹپک رہا تھا جہانگیر آگے بڑھا تو تصبیہا نے اسے رک دیا )

خبردار جو آگے بڑھے خبردار ۔اسے لگا تھا کہ نس کاتتے ہی وہ مرجائے گی مگر ایسا نہیں ہوا تو اس نے وہ ہی بلیڈاپنی گردن پر چلانا چاہا تو جہااگیر نے اس سے بلیڈ چھینا ۔۔تصبیہا بے ہوش ہو گئی خون زیادہ بھنے کی وجہ سے ۔جہانگیر نے اسے اٹھایا اور ہوسپیٹل لے آیا ۔۔۔۔)

موصب کی آنکھوں میں نمی تھی ،جہانگیر نے سب کچھ اسے بتادیا جو کچھ وہاں ہوا تھا ۔۔

اس سب کا زمیدار میں ہوں ،میری وجہ سے وہ آج وہ اس حال میں ہے ۔مجھے معاف کردے موصب مجھے معاف کردے ۔۔(جہانگیر واقعی اپنے آپ کو اس کامجرم سمجھ رہا تھا اور وہ تھا بھی ۔۔)

دعا کر کہ اسے کچھ نا ہو ورنا تجھے اتنی عبرت ناک موت دوں گا کہ آج تک دنیا میں کسی نے نہیں دی ہوگی ۔۔۔۔(موصب نے ایک ایک لفظ چپا کہ بولا )

ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کا خون بہت بہہ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا بچنا مشکل ہے ۔۔۔۔ موصب مجسمہ بنا کھڑا تھا وہ ایک پل کہ لیے بھی وہاں سے نہیں ہٹا تھا ۔۔ اسے تصبیہا کی ایک ایک بات ،اس کی ہنسی ،اس کاغصۃ کرنا ،اس کا ناراض ہونا ،اس کا شرمانا ایک ایک منظر اس کی آنکھوں کی سامنے تھا ۔۔۔سب لوگ وہاں پہنچ گئے تھے احمد صاحب ،شاہ کی موم،سعد،فیروز،فاہزہ ،نور بھی وہاں سب تھے اور تصبیہا کہ لیے دعا گو تھے ۔۔۔۔
ڈاکٹر باہر آئے توانھوں نے کہا)

خون بہت بہہ گیا ہے ان کا ،مگر اللہ کا کرم ہے وہ اب ٹھیک ہیں ۔بس انھیں ہوش آجائے تو اپ ان سے مل سکتے ہیں۔۔۔(موصب کی آنکھ سے ایک آنسو گرا اپنے رب کہ شکرانے پر۔اس نے رب کا شکریا ادا کیا کہ اس کہ اللہ نے اسے آج اس کی زندگی واپس دے دی ۔۔

جیسے ہی تصبیہا کو ہوش آیا ۔۔سب لوگ اس سے ملنے گئے سوائے موصب کہ ۔۔۔

موصب کہاں ہیں ؟ وہ مجھ سے ناراض ہیں ؟ ( تصبیہا نے شاہ سے پوچھا)

میں بولاتا ہوں بھائی کو(یہ کہہ کر وہ باہر چلاگیا ۔آہستہ آہستہ کرکہ سب لوگ باہر چلے گئے ۔۔دروازا کھھلنے کی آواز پر تصبیہا نے گردن موڑ کہ دیکھا کہ وہ موصب ہوگا مگر سامنے جہانگیر کو دیکھ کر اس کا چہرا لال ہوگیا ۔۔)

تم کیوں آئے ہو یہاں ؟ اور کیوں بچایا مجھے ؟ مجھے نہیں جنا موصب کہ بغیر ۔میں نہیں رہ سکتی اس کہ بغیر تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی ہے ؟ موصب میری زندگی ہے ۔۔اس کہ بنا تصبیہا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔( غصہ،التجا ،دکھ سب کچھ تھا اس کے لہجے میں ۔موصب جو کہ اندر ہی آرہا تھا بس سن کر مسکرایا )

میں جانتا ہوں اور ایسی لیے تم سے معافی ماانگنے آیا ہوں ۔مجھے معاف کردوں میری وجہ سے تمہیں تکلیف پہنچی ۔میں چلا جاوں گا یہاں سے بس ایک دفعہ کہہ دوں کہ تم نے مجھے معاف کیا ۔ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گی میرا اللہ بھی مجھے معاف نہیں کرے گا ۔۔(جہانگیر ہاتھ جوڑ دئے اس کہ سامنے ۔۔۔۔)

تصبیہا نے پہلے تو اسے دیکھا پھر بولی )

اگر تم اپنی غلطی مان رہے ہو تو میں نے تمہیں مواف کیا ۔مگر ایک بات ہمشہ یاد رکھھنا کہ محبت ہمیشہ اس سے کرو جوتم سے محبت کرے ،اس سے نہیں جس سے تم محت کرتے ہوں ۔میں دل سے دعا گو ہوں کہ اللہ تمہیں بہت جلد اس شخص سے ملوادے جو تم سے محبت کتی ہوں ۔۔۔۔(تصبیہا نے اسے دل سے دعا دی )

شکریا (وہ مسکرا بھی نا سکا اور ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے اس کی زندگی سے چلا گیا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے موصب کا انتیظار تھا ک وہ کیوں نہیں آرہا اس سے ملنے نا ہی کوئی اس کہ بارے میں بتارہا تھا ۔تصبیہا دوایوں کہ زیر اثر تھی اس لیے اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔

رات کہ کسی پہر اس کی آنکھ کھلی تو اپنے ساتھ کسی کا وجود چپکا پایا ،اس کی تو جان نکل گئی ۔جب گردن کو موڑکر دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں موصب تھا جو اس کہ بیڈ پر ،اسی کہ برابر میں لیٹا تھا ،اس کا سر تصبیہا کہ کندھے پر تھا ،ایک ہاتھ تصبیہا کہ اوپر اور دوسرا تصبیہا کہ سر کہ نیچے۔۔۔۔

وہ سوتا ہوا بہت پیارا لگتا تھا تصبیہا کو مگر آج اس کہ چہرے پر معصمیت کہ علاوہ سکون بھی تھا ۔۔تصبیہا اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ اچانک دورازہ کھولا تو تصبیہانے گردن موڑ کہ دیکھا تو نور اور شاہ اندر آئے مگر اندر کا منظر دیکھ کر رہ گئے ۔۔۔تصبیہا نے انھیں باہرجانے کا کہا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ موصب کی نیند خراب ہو۔۔ شاہ نے ہاں میں سر ہلایا اور نور کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب بھائی ،تصبیہا آپی سے بہت محبت کرتے ہیں نا۔۔(نور نے باہر نکل کر شاہ سے پوچھا )

بہت زیادہ ۔۔(شاہ نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔۔۔)

تم بھی مجھ سے اتنی محبت کرو گے شادی کہ بعد ۔۔(نور نے سنجیدگی سے پوچھا)

پہلی بات ہمارا نکاح ہو چکا ہے ،دوسری بات آپی بھی بھائی سے بے انتہا محبت کرتی ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آج اندر ہیں ۔(شاہ نے اسے ستانے کہ لیے کہا)

اس سے پہلے کہ نور کچھ کہتی کہ سعد،فیروز اور فاہزا وہاں آگئے اور ان کی بات ادھوری رہ گئی ۔۔۔وہ تصبیہا سے ملنے اندر ہی جارہے تھے کہ شاہ نے انھیں روک لیا۔۔۔۔۔

میرا خیال ہے پہلے ناشتہ کرلیتے ہیں ۔۔کیوں نور (شاہ نے کہہ کر نور سے تصدیک چاہی ۔۔)

ہاں بلکل ۔۔(نور اس کہ بات کا مطلب سمجھ گئی تھی اس لیے ہان بولی)

وہ سب ناشتہ کرنے چلے گئے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسب کی آنکھ کھولی تو تصبیہا کا مسکرتا چہرا اس کہ سامنے تھا ۔۔۔ جیسے ہی تصبیہا نے دیکھا اس کی آکنھ کھول گئی ہے وہ مصنوعی غصے سے بولی )

یہ کون سی جگہ ہے سونے کی ؟
یہ ہیتو جگہ ہے جہاں سکون کی نیند آتی ہے (موصب کا اشارہ تصبیہا کی طرف تھا ۔وہ اپنی ناک سے اس کی نا ک کو چھوتا ہو بولا اور دوبارہ آنکھیں بند کرلیں )

موصب کوئی بھی اندر آسکتا ہے یہ ہمارا بیڈ روم نہیں ہے ،ابھی شاہ اور نور بھی ائے تھے ۔۔۔(اسے سوتا دیکھ وہ بولی)

تو؟؟؟؟؟؟؟(وہ آنکھیں بند کیے بولا)

تو یہ کہ اٹھو یہاں سے ۔۔(اس نے موصب کو اٹھنے لکہ لیے کہا)

ایک شرت پہ ۔۔(وہ ابھی بھی ویسے ہی لیٹا بولا)

کیا؟؟(تصبیہا نے شرت پوچھی تو اس نے انکھیں کھلیں اور بولا کچھ نہیں بس اپنی انگلی اس کی ہونٹوں پر رکھی اور پھر اپنے ہونٹوں پر ۔۔۔۔تصبیہا اس کا مطلب سمجھ گئی تھی ۔اس بولی )

موصب۔۔۔۔۔ بدتمیز۔۔۔۔اٹھو (تصبیہا نے اسے گھورا )

گھورتی رہو تمہیں پتا ہے میں نہیں مانوں گا ۔۔۔ (اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں )


تصبیہا پولیش اسٹیشن پہنچ گئی شاہ کہ ساتھ ۔ وہ مؤصب کہ لوکاپ کہ باہر کھڑی تھی ،موصب ساخوں کہ پار دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔اسے اس حالت میں دیکھ کر تصبیہا کی آنکھوں آنسو آگئے ۔موصب جس کی نظر ایک مرئی نقطے پر تھی اس نے سامنے دیکھا تو تصبیہا جو دیکھ کر وہ فورا اٹھا اور اس کہ پاس آیا مگر آج ان کہ بیچ ایک دیوار تھی،سلاخوں کی دیوار۔
تم ۔۔تم یہاں کیوں آہیں ؟ (موصب نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔تصبیہا بنا کوئی جواب دیے آنسوں بہا رہی تھی ۔موصب نے اس کا چہرا ہاتھوں میں لیا اور اس کہ آنسو صاف کیے اور بولا)

تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا تصبیہا ۔۔(اس نے نرمی سے کہا )

یہ سب میرئ وجہ سے ہورہا ہے ۔۔(اس کی آواز پھرائی ہوئی تھی ۔۔)

نہیں ۔۔۔نہیں میری جان ایسا نہیں ہے ۔۔(اس نے اسے سمجھانا چاہا)

ایسا ہے ۔۔(اس نے موصب کی بات رد کی) میں تمہیں یہاں نیہں دیکھ سکتی ۔۔۔(وہ موصب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی)

کتنی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کودیکھتے رہے،انھیں نہیں تھی خبر کہ وہ کہاں ہیں ،کون لوگ ان کہ آس پاس ہیں ۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایک پولیس والا آیا اور بولا)

ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے ۔۔۔(وہ زور سے بولا تو وہ دونوں ہوش میں آئے ۔۔۔۔۔)

جلدی آجاو۔۔(تصبیہا نے اس سے پہلی بار التجا کرتے ہوئے کہا مگر یہ اس کہ بس میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔موصب ہلکا سا مسکرایا اور بولا)

اپنا خیال رکھنا اور رونا بلکل نہیں۔۔۔(موصب اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو تصبیہا نے ہاں میں گردن ہلائی اور جانے لگی پھر مڑکر اسے دیکھا تو موصب نے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ چلی گئی ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر بھی اسے سکون نہیں ملا اسے اس حال میں دیکھ کر تصبیہا کو قرار نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ہی قصوروار سمجھ رہی تھی ۔۔۔ساری رات اس نے اسی سوچ میں گزار دی ۔۔ فجر کی نماز پڑھ کر وہ اٹھی اور ایک نتیجے پر پہنچی ۔ اس نے جہانگیر کو فون کیا )

وہ سورہا تھا جب موبائل پر اس کی کال آئی جب اس نے نام دیکھا تو جھٹ اٹھ بیٹھا اور فورن اس کی کال اٹھائی۔۔

اسلام و علیکم۔۔(جہانگیر نے سلام کیا )

تم سے ملنا ہے مجھے ۔۔(اس نے سلام کا جواب دیے بغیر کہا)

زہے نصیب ۔۔۔۔(اس نے شوخی سے بولا وہ تو خوشی سے ہی نہال ہورہا تھا کہ تصبیہا نے اسے ملنے کہ لیے کہا)

تصبیہا نے اسے جگہ اور وقت بتا کر فون بند کردیا ۔اے غصہ تو اس پر بہت آیا مگر ضبت کر گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے کیسے یاد کیا آج ؟(جہانگیر نے اس پوچھا جو اس کہ سامنے بیٹھی تھی)

   1
0 Comments